بچوں میں نزلہ وزُکام سے زیادہ عام غالباََ کوئی مرض نہیں
بہترقوتِ مدافعت اس سے بچاؤمیں اہم کردارادا کرتی ہے
اگرآپ چاہیں تو آپ کی زندگی کے ہر سال میں ہفتے کا اضافہ ہوسکتاہے. اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کےلئے سال میں باون کے بجائےترپن ہفتے ہوجائیں گےبلکہ یہ اس طرح ممکن ہے جب آپ کو کسی طرح نزلہ زُکام سےتحفظ مل جائےگا. اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس دنیا کارہنےوالاہرشخص سال میں دوایک مرتبہ تو ضرور نزلہ زُکام کا شکارہوتا ہےاوراس کی وجہ سے اپنا وقت ضائع کرتا ہے جو کم ازکم ایک ہفتہ توضرورہوتا ہے. اس مرض میں خواتین، مرداوربچے سب ہی مبتلا ہوتے ہیں. بچےمدرسوں سے اور بڑے اپنے کام کاج س غیرحاضر رہتے ہیں. بچوں میں اس سے زیادہ عام غالباََ کوئی مرض نہیں.
نزلہ زُکام کے اس اسرارورموز کو سمجھنےکے لئے متعددتحقیقات کی گئی ہیں.اس ضمن میں جو معلومات ہوئی ہے. اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وائرس کی متعدد اقسام میں سے کوئی بھی اس مرض کا نقطہءآغاز بن کر اس مرض کے لئے بنیادفراہم کرتی ہے. اس طرح مرض کا سبب بن جاتی ہے کہ وائرس کے زیرِاثریکے بعد دیگرےہماری بافتوں میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں.
وائرس اورجرثیم ہرجگہ پائےجاتے ہیں ہوامیں، پانی میں اورغذامیں، جلد کی بالائی سطح پربھی ہوتے ہیں. سانس کی نالیوں میں بھی لیکن یہ بات دلچسپ ہے کہ اکثراوقات یہ بے ضرر ہوتے ہیں. جن افراد کو نزلہ زُکام ہونے والا ہوتا ہے ان میں وائرس سے پہلےناک اور حلق کی نرم و نازک جھلیوں پرحملہ ہوتا ہے، اس کے بعدعام جراثیم ان مقامات پر دخول کرتےہیں اورعفونت کا آغاز کرتےہیں.
نزلہ زُکام لگنے کا انحصار دوعوامِل پر ہے. سب سے پہلے تو وائرس کی موجودگی، جس کے سبب دراصل نزلہ ہوتا ہے، دوسرا مرض و عفونت کو خلافِ جسم اپنی قوتِ مدافعت، انسانوں میں چند افراد تو مرض میں مبتلاہوجاتے ہیں اورچند لوگوں پراس کا اثر نہیں ہوتا اس انفرادی خصوصیت اوردفاعی صلاحیت میں سے اہم کردار ہرشخص کے اپنےمزاج، جسم کی بافتوں کی ساخت اوراکتسابی قوتِ مدافعت کا ہے جوجراثیم کوجسم میں دخول سے روکتی ہےیا اگر وہ داخل ہوجائے تو ان کاقلع قمع کردیتی ہیں. یہ خصوصیت ان افراد میں اپنی فطری مامونیت (Immunity) کےسبب ہے. اس قسم کی مامونیت کے ذریعےایک شخص تقریباً ہر مرض سے مامون ومحفوظ رہ سکتا ہے اوریہ ایسی انمول نعمت ہے جس کی ہرشخص خواہش کرتا ہے.
یہ قدرتی مامونیت ہمیں صرف وراثت میں ہی نہیں ملتی بلکہ اس کا تعلق ہمارے طرزِزندگی اورخوراک سےبھی ہے جوہم کھاتے ہیں. یہ بات ثابت ہوچکی ہےکہ بعض غذاؤں سے معیادی بخار کا امکان بڑھتا ہے. اسی طرح غذاسے نمونیہ کا بھی تعلق ہے کہ چند غذاؤں سے تحفظ ملتا ہےاورچندغذاؤں سے امکان بڑھ جاتا ہے مرض کے خلاف دفاعی صلاحیت کا ہمارے طرزِزندگی سےبھی قوی تعلق ہےکہ اچھی صحت غیرمصنوعی طرزِزندگی سےبھی حاصل ہوتی ہے کہ اس طرح نہ صرف انسان میں قوت آتی ہےبلکہ قوتِ مدافعت بھی. تندرستی ان افراد کے مقسوم میں نہیں ہوتی جو ہر وقت طبیبوں کے تعاقب میں اس غرض سے سرگرداں رہتے ہیں کہ ان کو کوئی نسخہء شفا مل جائے.
مندرجہ بالا تفصیل سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ اگر کسی شخص میں مدافعت مناسب ہے تو وائرس کے حملہ کے باوجود بھی اس بات کا امکان ہے کہ اس کو کوئی مرض نہ ہو اگر قوت مدافعت درمیانی ہے تو نزلہ تو ممکن ہے ہوجائےلیکن یہ معمولی ہوگا. اگر اس شخص میں قوت مدافعت نہایت کم ہے تو پھر اس کو بہت آسانی سے نزلہ زُکام ہوجائےگا اوراس کا امکان ہے کہ یہ نہایت شدید نزلہ شروع کس طرح ہوتا ہے؟ دراصل جو وائرس نزلہ شروع کرتا ہے. وہ ناک و حلق کی نرم جھلیوں میں اپنے قدم صرف اس وقت جما سکتا ہے جب کہ یہ جھلیاں صحت مند نہ ہوں.اس سے یہ مطلب اخز کرنا درست ہے کہ نزلہ کے سبب سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب یہ جھلیاں کمزور ہو جاتی ہیں توان میں وائرس آسانی سے دخول کرلیتا ہے. اگر جسم کے مضافاتی حصے ٹھنڈ میں رکھے جائیں، یعنی جب پاؤں ٹھنڈے ہوں یا کافی دیر تک ٹھنڈ میں رکھےرہیں یا ٹھنڈے پانی میں ننگے پاؤں یا بھیگے ہوئے جوتوں کے ساتھ چلاجائے یا ٹھنڈے موسم میں بغیر جوتوں اور موزوں کے پھرا جائے جس طرح کہ ہمارے ملک کے بچوں میں عام تو ناک اور حلق کی چھوٹی سرخ رگیں سکڑ جاتی ہیں پھر ان جُھلیوں پر وائرس باآسانی حملہ کرتا ہےاور نزلہ پیدا کرتا ہے.
جب ایک مرتبہ یہ جُھلیاں متاثر ہوجائیں اور ان کو ضرر پہنچ جائے تو وائرس ان کے اندر داخل ہوجاتا ہے پھر ان جُھلیوں میں یکے بعد دیگرے تبدیلیاںواقع ہونا شروع ہوجاتی ہیں. جب ان جُھلیوں کی سُرخ رگیں سُکڑتی ہیں تو ان میں خون کا دورانیا گھٹ جاتا ہے جھلیوں کی بالائی سطح پر جو خلیات ہیں ان میں قوتِ مدافعت کم ہوجاتی ہے. یہاں کے ریزش پیدا کرنےوالےغدود سے زیادہ مقدار میں ریزش ہونے لگتی ہے اور مریضوں کی ناک بہنا شروع ہوجاتی ہے. اس وقت تک ان کی جُھلیوں کی اس قدر ضرر پہنچ چکا ہوتا ہے کہ عام جراثیم بھی ان پرحملہ کرنا شروع کردیتے ہیں جس کے نتیجے میں باقائدہ عفونت پیداہوجاتی ہے.