A-Man-Prayer-Pray

مذہبی فرقہ واریت کی سیاست کابڑھتاہوارجحان

ہمارے لیئے عبادت کے لائق صرف اللہ ربُ العزت ہی کی ذات ہے

ہمارا مقصدِ حیات بھی یہی ہے کہ ہم اپنے خالق و مالک کو پہچانیں

NAMAZ-KI-ADAIGI

ہماری زندگی کااولین فریضہ اللہ کی عبادت ہے، ہماری عبادات بلاشبہ خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ ہوتی ہیں،ہماری نمازیں، ہمارے روزے، حج اور دوسرے امور جو عبادات کے زمرے میں آتے ہیں یہ تمام عبادات مشترک ہیں. لیکن کیا وجہ ہے کہ عبادات کے مشترکہ ہونے کے باوجود ہمارے اندرایسےمذہبی اور فقہی اختلافات پیدا ہورہے ہیں جو ہمیں مسلسل پستی کی جانب دھکیل رہےہیں.
آئے دن ایسے واقعات جنم لے رہے ہیں جو ہمارےلیئے لمحہ فکریہ کی صورت رکھتے ہیں کہیں مساجد پر قبضے ہورہےہیں اورقبضہ کرنے کی کوشش میں مساجد کی بے حرمتی کی جارہی ہے، مساجد کی بے حرمتی کے ساتھ ساتھ امامِ مسجد کی بھی توہین کی جارہی ہے اور انھیں ایسےالقابات سے نوازاجارہا ہے جسےسن کر سرندامت سے جھک جائیں. امامِ مسجد کو مارنا، پیٹنا اور قتل کردینا تو معمول بنتا جارہا ہے، ایساسب کچھ کیوں ہورہا ہے؟ صرف اس لیئے ہورہا ہے کہ یہ مسجد ہمارے”مسلک” کی مسجدنہیں ہے اور امام ہمارے “مسلک” کا امام نہیں ہے. ہم بریلوی ہیں، ہم دیوبند ہیں، ہم اہلِ حدیث ہیں،ہم توحیدری ہیں. ہم سب آخر ایک مسلمان کیوں نہیں ہیں.؟
بقول اقبال:
حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

یہ مذہبی معاملات اور تنازعات ہمیں کس موڑ پر لے جارہے ہیں؟
موجودہ حالات میں جب گوناگوں اختلافات نے دنیائےاسلام میں درہمی وبرہمی پیدا کررکھی ہے اورامتِ مسلمہ کے خلاف دشمن اقوام شدّومد سے صف آراء ہیں اور یہ موقع ڈھنڈتی ہیں کہ کب اسلامانِ عالم کی صفوں میں انتشار پیدا ہو اور وہ اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھائیں، اس قسم کے پُرآشوب واقعات حالات کو بد سے بدتر بنارہے ہیں، ضرورت تو یہ کہ ہم اختلافات کو دور کریں اور آپس میں اتحاد پیدا کریں حقیقتاََ ایسے پکے اور سچے مسلمان بن جائیں کہ کوئی کافر ہماری صفوں میں انتشار پیدا نہ کرسکے. لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب ملکی سیاست کی غلاظت میں لتھڑے نوجوانوں کو مذہبی سیاست میں بھی لایا جارہا ہے، جس کا مظاہرہ ہمارے شہروں میں آئے دن ہوتارہتاہے.
ہر علاقے میں نوجوانوں کی ٹولیاں تشکیل دی جاتی ہیں کہ کس علاقے میں کس مقام پر اور کس طرح قبضہ کرنا ہے پھر جب مساجد پر قبضے کی خبریں اخبارات میں شائع ہوتی ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس چکر مین کسی کی ٹانگیں توڑ دی گئیں، تو کسی کا سر پھاڑدیا گیا اور نوبت ہلاکت تک بھی پہنچ جاتی ہے.
ہمارے نوجوان نام نہاد سیاست دانوں کے ہھتے چڑھ گئے ہیں اور سینکڑوں، ہزاروں نوجوان اپنی جانیں ضائع کرچکے ہیں، یہ نام نہاد سیاست دان ملک کے نوعمرجوانوں کا مستقبل تاریک ترکرکے اپنی منفی سیاست کو چمکارہے ہیں.
بےروزگاری نے ملک کے نوجوانوں کو ہر منفی طرزِعمل اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے وہ صرف “روپیہ پیسہ” حاصل کرنے کے لیےہرناجائزکام کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں انھیں اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ یہ مذہبی تنظیمیں اور دھوکے بازسیاسی تنظیمیں ان سے کام لے رہی ہیں.
شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ:
”بےعلم خدا کو نہیں پہچان سکتا”
نوجوانوں میں مذہبی جھگڑے بھی اس بات کی غمازی کرتے نظر آتے ہیں کہ مذہبی سیاست ایک نیا رنگ اختیار کرتی جارہی ہے.
ذاس وقت شدیدضرورت تو اس امر کی ہے ہم یہ مذہبی ملکی اختلافات کو ختم کریں، ہمیں چاہئے کہ ہم تمام معاملات پر سنجیدگی سے غور کریں اور خود کو اسی جذبہء اسلامی سے سرشار کریں جو ہمارے بزرگوں کا طرّہ امتیاز تھا اور جس کی بدولت ان لوگوں نے ایسے کارہائےنمایاں سرانجام دیےجو تاریخ کا روشن باب ہیں اور رہتی دنیاتک یادگار رہیں گے.

BHAI-CHARGI

ہمارے نوجوان آج دین سے جس قدر دور ہیں شاید پہلے کبھی نہ تھے،وہ نماز تو ضرور پڑھتے ہیں لیکن شعوری طورپرنمازاوردین کو سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں، وہ نماز کوصرف”فرض” کی حد تک جانتے اورسمجھتے ہیں. اصل مسئلہ دین کو سمجھنے کا ہے.
سیدالمُرسلین حضرت محمد صلٰی اللہ علیہ وآلہِ وسلم نے فرمایا کہ“لوگوں کو کِیا ہوگیا ہے کہ اپنے پڑوسیوں کو “علمِ دین” کی تعلیم نہیں دیتےہیں اور نہ ان کو برائیوں سے روکتے ہیں” مزید فرمایا “دوسرے لوگوں کو کِیا ہوا ہے کہ وہ اپنے اہلِ علم پڑوسیوں سے نہیں سیکھتےاور نہ دین کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی دین میں اجتہاداورسوجھ بوجھ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ لوگ یا تو دین سیکھیں اور سکھلائیں اور دین کی سوجھ بوجھ پیدا کرنے کی کوشش کریں اور کرائیں اور لوگوں کو نیکی کا حکم دیں اور برائیوں سے باز رکھیں ورنہ اللہ تعالٰی دنیا ہی میں ان پر عذاب نازل کرے گا(کنزالایمان)”
آج مسلمان جب باہمی انتشار کا شکار نظر آتا ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم اپنے مذہب کو صحیح طرح سے سمجھ ہی نہیں سکےاگر”اورتمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں” کی ہی عملی تفسیر بن جائیں تو یہ ملکی مسائل خودبخود ختم ہوجائیں اورہماری مساجد کے ماتھوں پر جلی حروف سے مزین یہ عبارت “مسلک اہلِ سنت”، مسلک اہلِ حدیث”، “مسلک دیوبند” مٹادیے جائیں تو ہم بے دھڑک ہر مسجد میں نماز پڑھنے چلے جائیں، اب تو ہم یہ عبارت مسجد کے ماتھوں پرتلاش کرتے ہیں کہ آیا یہ ہمارے مسلک کی مسجد ہے یا نہیں، عبادت جب اللہ کی کرنی ہے تو بھائی میرے یہ کیا دیکھنا کہ یہ کس کی مسجد ہے. حضرت علامہ اقبال نے اسی موقع کےلئے فرمایا کہ:
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

اللہ ہمارے حالوں پر رحم فرمائے اور ہمیں سیدھی راہ پر چلائے (آمین)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں