اسلامی فلسفہ تعلیم نوجوانوں کی ذہنی،علمی اور دماغی صلاحیتوں کو اعلٰی اقدارِانسانی پراستوارکرتا ہے
اسلام کا فلسفہ تعلیم یہ ہے کہ وہ انسانی معاشرے کو ایک ایسا ضابطہءحیات دینا چاہتا ہے جواللہ اوراس کےرسول صلی اللہ عیلہ وسلم پر ایمان اور کامل یقین سے ہم آہنگ ہو.اگر اسلامی تاریخ کی ورق گردانی کی جائے اور اس قلیل تعداد اور بے سروسامان جماعت کے کردار پر نظر ڈالی جائے جس نے قیصروکسریٰ جیسی باجبروت سلطنتوں کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا، تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کامیابی کا راز اللہ پر کامل یقین اور اس کے رسول صلی اللہ عیلہ وسلم کی راہنمائی پر مضبوطی سے قائم رہنے میں پنہاں تھا. اس لئے اگر کوئی بہترنظامِ تعلیم ہے تو وہی ہے جس کو اسلام نے دنیا کے سامنے پیش کیا. اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی نظامِ تعلیم، انسانی معاشرے کو عدل و انصاف، حق شناسی اور پاکیزگی کے اعتبار سے بلند و بالا بنانے کا خواہش مند ہے.
اسلام کا نظامِ تعلیم ضابطہءاخلاق کو استوار کرتا ہےاورلادینی عناصر کے مقابلے میں اچھی عادتوں اور عمدہ سیرت وکردار کی تعمیر پر زور دیتا ہے. اس کا سبب یہ ہے کہ لادینیت یا مادیت پرستی قوم کے لئےذہنی قلبی اور روحانی سکون فراہم نہیں کرتی، جبکہ اسلام میں تعلیم کا رشتہ دین و اخلاق اور تہذیب و شائستگی سے جڑا ہوا ہے. اس لئے مسلمانوں کو خیرالامم کہا گیا ہے. چناچہ سورۃ آلِ عمران میں ارشادِ باری تعالٰی ہے کہ
“اے مسلمانو! (جتنی قومیں دنیامیں پیدا ہوئیں) تم بہتر امت ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور بُرےکاموں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو”.
اسلامی فلسفہ تعلیم یہی ہے کہ وہ نوجوانوں کی ذہنی،علمی اور دماغی صلاحیتوں کو اعلٰی اقدارِانسانی پر استوار کرتا ہے. اسلام کا فلسفہ تعلیم ایک بلند نصبُ العین رکھتا ہےاور وہ بلند نصبُ العین یہ ہے کہ وہ معاشرے میں نیکی کا چلن عام کرنا ہے. اس کا کہنا یہ ہے کہ سوسائٹی میں عدل و انصاف کا دور دورہ ہو. کسی کی حق تلفی نہ کی جائے ایک دوسرے کا احترام کیا جائے خالق کی رضا اور نجاتِ آخرت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا جائے کسی کی دل آزاری نہ کی جائے انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کو تن دہی سے ادا کیا جائے.
دراصل تعلیم ایک معاشرتی عمل ہے.لفظ تعلیم کے معنی ہیں سکھانا راہ نمائی کرنا چونکہ تعلیم کے ذریعے بچے کی مخفی اور فطری صلاحیتوں کو ابھار کران سے کام لیا جاتا ہے اس لئے اسکو تعلیم کہا جاتا ہے. گویا تعلیم میں بچے کی تربیت اور تادیب کاپہلوبھی شامل ہے. رسول صلٰی اللہ وعلیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے میری تربیت بہتر طریقے پر کی ہے.ہرقوم اور ہر معاشرہ اپنی ضروریات، مقصد حیات نظریات و عقائد کے مطابق اپنے بچوں یا افراد کو تعلیم دیتا ہے ہم با حثیت ایک مسلمان تعلیم کےمفہوم کے لئے قرآن مجید اور احادیث کو بہتر ماخذ تصور کرتےہیں جس کے مطابق معرفت الٰہی حاصل کرنا، اپنے آپ کو پہچاننا، کائنات کی حقیقیت کو معلوم کرنے کے لئے جستجو کرنا، اصل علم ہے اس طرح اسلامی فلسفہء تعلیم دین و دنیا فرداوراجتماع دونوں کی فلاح وبہبود کو مدِ نظررکھتا ہے.
اسلام میں تعلیم ایک بامقصد عمل ہے اس سے فرداور معشرے کی اصلاح کا کام لیا جاتا ہے. تعلیم کا مقصدصرف انسان کے فطری ادراک کی تربیت کرنا ہی نہیں بلکہ معرفتِ کردگار کا حصول بھی ہے. غرض اسلام میں تعلیم کا مفہوم وہ عمل ہے کہ جو دین کے ساتھ رشتہ قائم رکھتے ہوئے اس کی طبعی قوتوں کی نشونما کے فرائض انجام دے. دراصل تعلیم ایک حرکی عمل ہے، جس کی ضروریات اور مسائل بدلتے اور ابھرتے رہتے ہیں. معاشرے اورافرادکی نشونمابدلتے ہوئے تقاضوں اور تمناؤں سے مربوط ہونے کا نام ہی تعلیم ہے اسلامی نظامِ تعلیم فرد اور اجتماع کے ذہنی،جسمانی،سماجی تقاضوں کو پوراکرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے.
ہر ملک و قوم کا نظامِ تعلیم اس کے مخصوص نظریہءحیات سے مطابقت رکھتا ہے چناچہ موجودہ دور میں سوشلسٹ روس میں مخصوص نظرئیے کی تعلیم دی جاتی ہے. ایک اندازہ کے مطابق تدریسی طریقوں کی تربیت کے پانچ سالہ نصاب کی تکمیل کے دوران تقریباََ پانچ سو گھنٹے طلبہ کو اشتراکی تصورات کی تعلیم پر صرف کرنا پڑتے ہیں اس حقیقت کی روشنی میں اگرپاکستان میں قرآن و حدیث یا اسلامی تعلیمات سے مسلمان بچوں کوآگاہ کیا جائےتویہ کوئی بےجا بات نہیں. اس سلسلے میں جو اہم بات ہےوہ یہ ہےکہ کسی بھی نظام کے کیس بھی تعلیم کے مقاصد کا واضح تعین ضروری ہوتا ہے. پاکستان چونکہ اسلامی مملکت ہے اس لئے یہاں نظامِ تعلیم کا مقصد یورپی ممالک کے علی الرغم اسلامی نظریات یا اسلامی اقدار کا تشخص ہونا چاہئے مقصد کا تعین نہ ہونے کی صورت میں ایک بےیقینی کی کفیت طاری ہوتی ہے اور پھر منتشر راستے جس جانب بھی لے جائیں طلبہ، اساتذہ اوروالدین اسی جانب چلتے رہتےہیں اس سےدولت،وقت اورعمرکا ضیاع ہوتا ہے.مقصد کے تعین کےبغیرتدریس کا عمل بے معنی رہتاہےاساتذہ اور طلبہ دونوں کے لئےتدریس غیرموثرہوتی ہے.دوسری بات یہ کہ تعین کے بغیر مخصوص طریقہ کاراختیار نہیں کیا جاسکتا مقصد کے تعین سے اساتذہ کے لئے بھی سہولت ہوتی ہے اور منزل تک پہنچنےمیں رکاوٹ دور ہوجاتی ہے. تعلیم بچوں کی مکمل اور متوازن نشونما کا نام ہے.اس میں کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ پہلے منزل اور پھر اس کی راہ کا تعین کیا جائے. اگر راہ کا تعین درست نہ ہوتو پھر بچوں کی رسمی تعلیم وتربیت سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا. اسلامی فلسفہءتعلیم کا مقصد صرف انفرادی اصلاح نہیں بلکہ فرد واجتماع دونوں کی فلاح و بہبود ہے.مقاصدِ تعلیم کے تعین کے سلسلے میں نہ تو اجتماع کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اجتماعی مفاد کی خاطرفرد کو قربان کیا جاسکتا ہے.معاشرے کی ترقی اورخوش حالی کا انحصار مقاصدِ تعلیم کا تعین پر ہے.بوعلی سینا اور امام غزالی نے گیارہویں صدی عیسوی میں پیشوں کی تعلیم کو اہمیت دی. اسلامی فلسفہءتعلیم کی رو سے تعلیم کے اہم مقاصد میں ایک مقصد یہ بھی ہے کہ فرد کو ایک کامیاب شہری بنایا جائے کیونکہ بچے کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد آخر کار ایک شہری کی زندگی گزارنا پڑتی ہے اس سلسلے میں بچوں میں اخلاق و کردار کی بلندی کے ساتھ ساتھ صحت و صفائی،محنت ضبطِ نفس اور دیانت کی خوبیاں اجاگر کی جائیں، باہمی تعاون اور جزبہءخدمت پیدا کیا جائےکیونکہ شہریت کی تربیت کا مقصد بڑی حد تک سماجی تربیت سے مطابقت رکھتا ہے جہاں تک قرآن اور احادیثِ نبوی صلٰی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ہے تو رسول صلٰی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی “اقرا” نازل ہوئی اس میں خواندگی کی تلقین کی گئی اورقلم کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے کی فضیلت کا اعلان کیا گیا اس پہلی وحی کو نظامِ تعلیم کا سنگِ بنیاد قراردیا جاسکتا ہے. جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے تو قرآنِ مجید نے سورۃ بقرہ میں حضرت آدم علیہ السلام کی فرشتوں پر جو برتری کا سبب بتایا تو وہ یہی تعلیم ہے چناچہ قرآنِ مجید کا ارشاد ہے کہ
“اور اللہ تعالٰی نےحضرت آدم علیہ اسلام کو تمام چیزوں کے نام (علوم) سکھائے”.
اس آیتِ کریمہ سے علم و دانش کی فضیلت ثابت ہوتی ہے.