Student-reading-book

فقدانِ علم کےاسباب اوراس میں اساتذہ کاکردار

استاد جیسے عظیم پیشے کو محض پیسہ کمانے کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا ہے

کسی طالبلعم کوتعلیم دینے کے لئے اہم بات استاد کے پڑھانے کا اندازہوتا ہے

Teacher-green-board

کسی زمانے میں استاد کا تصور نہایت عزت و تعظیم والا ہوتا تھا. ان کی تعظیم کا یہ علم ہوتا تھا کہ جب وہ کمرہِ جماعت میں داخل ہوتے تھے تو ہلکی ہلکی سرگوشیاں بھی بند ہوجایا کرتیں تھیں. پڑھاتے وقت ان کا لہجہ انتہائی صاف ہوتا تھااور سمجھانے کا انداز اتنا بہترین ہوتا تھا کہ ہر ایک کو ان کی سمجھائی ہوئی ایک ایک چیز سمجھ آجاتی تھی.اس کے باوجود اگر کسی کی سمجھ میں کوئی بات نہیں آتی تھی تو وہ بلاجھجک پوچھ لیتا تھا جسکا کہ اسے خاطر خواہ جواب بھی مل جاتا تھا.غرض یہ کہ تعلیم بہت اچھی ڈگر پرچل رہی تھی. پھر زمانے اور معاشرے کے قیام کے ساتھ ساتھ تعلیم کا معیار جس طرح گرا ہے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اورآج تک ہم اسی بحث میں پڑے ہیں کہ غلطی استاد کی ہے یا شاگرد کی؟ ذراسوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر ہم کب تک اس بحث میں پڑے رہیں گے؟ اس مسئلے پر پہلے بھی کتنی بحث ہوئی بہت سے مضامین اخبارات میں شائع ہوئے، الزام کبھی اساتذہ کو دیا گیا، کبھی طلباء پراورکبھی انتظامیہ پر یہ الزام تھوپا گیا. میں نے ایک عرصے سے اس مسئلے پر غور کیا ہے اور اس سے متعلق کئی مضامین بھی پڑھے ہیں.
میری اس مسئلے کی تحقیق میں کئی عیوب سامنے آئے مگر ان تمام میں سے ایک بہت بڑا عیب کُھل کر سامنے آیا جسے اچھی طرح پرکھ کر میں اسے آپکی خدمت میں پیش کررہا ہوں. تو آیئے میں اس مسئلے کا انکشاف کرتا ہوں جو کہ اس نظامِ تعلیم کو خراب کرنے میں ایک “سنگِ میل” کی حیثیت رکھتا ہے. ہوا کچھ یوں کہ جب کوئی طالب علم کسی پریشانی میں مبتلا ہوتا تھا اور استاد سے کوئی سوال پوچھتا تھا تو استاد بجائے جواب دینے کے الٹا اس سےسوال پر سوال کرنے شروع کردیتے تھےجس کے نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ وہ طالبعلم جس نے کہ سوال پوچھا ہوتا تھا وہ پھر کبھی بھی کچھ پوچھنے کی بھول نہیں کرتا تھااوراس عادت کو یہ کہہ کر فروغ دیا جاتا رہا کہ اس طرح طالب علم کا “Concept” کلئیرہوتا ہے. دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ ہرایرے غیرے نتھو خیرے نے استاد جیسے عظیم پیشے کو محض پیسہ کمانے کے لیئے استعمال کرنا شروع کردیا. یہاں میں ایک اہم بات بتانا چاہوں گا کہ یہ ضروری نہیں کہ ایک اچھا شاگرد اچھا استاد ہو یا ایک خراب یا تعلیم میں کمزور شاگرد استادبننے کے لائق نہ ہو.
Education-Class-Room

اگر کسی کے پاس پڑھانے کا لہجہ اچھا ہے تولازمی طورپر شاگرد ان کے اس لہجے کو(Accept)کرلیں گے. مگر جب استا کا لہجہ عجیب سا ہوگا یا دوسرے معنوں میں یکسانیت کا شکار ہوگا تو طلبہ یقینآٓ اس لہجے کی وجہ سے کچھ سمجھ نہ پائیں گے بے شک وہ جو کچھ پڑھا رہے ہیں وہ ٹھیک ہو. یہاں پر آپ اس “ایرے غیرے نتھو خیرے” لفظ استعمال کرنے سے میرا مطلب سمجھ گئے ہونگے. میں نے یہ لفظ اس لئے استعمال کیا کہ منصبِ تدریس ایک بہت ہی اہم منصب ہوتا ہے یعنی اچھی یا مناسب تعلیم، مشفقانہ انداز اور ایک ایسا لہجہ جس میں مناسب اتارچڑھاؤ ہو کہیں بھی ایک جیسا پن محسوس نہ ہو کہ یوں لگےجیسے کہانی سنائی جارہی ہوتب جا کرایک شخص استادکہلانے کا صحیح حقدار ہے.
اب انہی شرائط کو اس دورِجدید کے ترازو میں تول کرمیں اسطرح دکھاؤں گا کہ آپ خود کہیں گے کہ ہاں واقعی ایسا ہے اوراس میں ذرہ برابر بھی جھوٹ کی آمیزش نہیں ہے.گزشتہ دنوں میرے ایک دوست کو ایک مقامی کوچنگ سینٹرمیں جانے کا اتفاق ہوا ان سے غلطی یہ ہوگئی کہ انہوں نے وہاں کے “پرنسپل” سے پوچھ لیا کہ “سرآپ کے پاس جو اساتذہ تعلیم دیتے ہیں ہو کسی کالج کے پروفیسرزہیں”؟ بس ان کا اتنا کہنا ان کے لئے وبال ہوگیا وہاں کے پرنسپل سمیت تمام افراد ان پر غصہ ہوگئےاور بعد میں ان کے اسطرح برہم ہونے کی وجہ کچھ یوں سامنے آئی کہ جب انہوں نے کہاکہ”ہمارے یہاں لیکچرار نہیں پڑھاتےکیوںکہ جو طلبہ انٹر میں اچھے نمبرز لانے سے رہ جاتے ہیں وہ BscاورMsc کرکے لیکچرار بنتے ہیں جبکہ جوذھین طلبہ کی جماعت ہوتی ہے وہ یونیورسٹیزمیں اور میڈیکل کالجوں میں داخلہ لیتے ہیں وہی طلبہ ہمارے پاس پڑھارہے ہیں. دیکھیئے ساتھیو! کتنے دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ پرفیسرز اور لیکچرارز کو اس طرح بدنام کیا جارہا ہےاور کوئی ان سے جاکر یہ پوچھے کہ آپ کے پاس جو اساتذہ پڑھارہیں ہیں کیا ان میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جو کہ ایک استاد میں ہونی چاہئےیا یونیورسٹی اور میڈیکل کالج میں داخلے سے مہر لگ گئی ہے کہ یہ استاد بن سکتے ہیں.
اپنے اس عاجزانہ مضمون کا اختتام اس شعر سے کرونگا کہ:
معلّم ہے وہ جس نے کی راہ نمائی
دی تعلیمِ حق اور مٹادی برائی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں